Orhan

Add To collaction

اک ان چاہا رشتہ

اک ان چاہا رشتہ از سحر نور قسط نمبر3

خوش رہنے سے اب بہت ڈر لگتا دل سے مسکرانے سے اب بہت ڈر لگتا ہے چاروں طرف غم گھیرے کھڑے ہیں سکھ کا سوچنے سے اب بہت ڈر لگتا ہے آنکھوں کو تو اب عادت ہے آ نسوؤں کی جس دن نہ بہیں اس دن سے ڈر لگتا ہے راتوں کو بھی اب نیند ٹوٹ سی جاتی ہے ماں! مجھے اب سونے سے ڈر لگتا ہے #نور گھپ اندھیرا جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی دینا مشکل تھا۔ وہ اپنی امی کا ہاتھ پکڑے بھاگ رہی تھی۔ اچانک سے مڑکر جب پیچھے دیکھا تو اسکی چیخیں نکل گئی۔ بھونکتے ہوئے کالے رنگ کے وحشی کتے مسلسل انکا پیچھا کررہے تھے۔ امی پلیز تیز۔۔ اور تیز بھاگیں۔۔ اور تیز۔۔ امی پیچھے کتے ہیں۔۔ امی۔۔۔ امی کتے ہیں۔۔ وہ چلا رہی تھی رو رہی تھی۔۔ امی۔۔ امی۔۔۔ اچانک سے اسے محسوس ہوا وہ کسی کی آغوش میں ہے۔۔ زری۔۔ بیٹی۔۔ کیا ہوا کدھر ہے کتے۔۔ دیکھو کہیں بھی نہیں ہے۔ پاپا کی فکرمند سی آواز آئی۔ پاپا ہیں۔۔ امی وہ دیکھیں ہمارے پیچھے ہیں وہ مسلسل رو رہی تھی۔ لگتا ہے ڈر گئی ہے۔۔ وحید صاحب ندرت بیگم سے مخاطب ہوئے۔ میں کچھ پڑھ دیتا ہوں اس پر۔ سو جائے گی سکون سے۔۔ زری مسلسل کانپ رہی تھی۔۔ معلوم نہی کس پل وہ پھر سے سو گئی۔ 🍁🌹🌹🍁🌹🍁🍁🌹🍁🍁🌹🍁🍁🌹🍁🍁🌹🌹🍁 زین کافون مسلسل رنگ کررہا تھا۔ مگر وہ تو جیسے گدھے گھوڑے سب بیچ کر سویا ہوا تھا۔ لیکن کال کرنے والا بھی اسی کی طرح ڈھیٹوں کا تمغہ جیت کر آیا تھا۔ کیا مصیبت ہے۔۔ سونے بھی نہیں دیتے۔۔ زین آخر تنگ آکر اٹھ بیٹھا۔ اور کال پِک کی۔ بول۔۔۔۔ کونسی آفت آگئی ہے۔۔۔۔ جو کال پہ کال۔۔ زین شدید اکتاہٹ میں تھا۔ آفت تو نہیں آئی۔۔ پر تو کیوں اتنا اکتایا ہوا۔۔ کونسا ہل چلاتا رہا جو اتنی موت پڑ رہی ہے۔۔ اسد بھی اپنے ماڈل کا ایک ہی تھا۔ تونے یہ پوچھنے کیلئے کال کی تھی۔۔ زین کو شدید تپ چڑھ رہی تھی۔ نہیں پوچھنا تو کچھ اور تھا پر تیری بکواس کے اگے مجھے بھی پھر تھوڑا سا۔۔۔۔۔۔۔ بکنا پڑگیا۔۔ زین نے اسکی بات کاٹی۔ اب بول۔۔۔ بک کیوں نہیں رہا۔۔ رات پارٹی رکھی ہے فارم ہاوس میں۔۔ یہی پوچھنا چاہتا تھا کہ رات میں فری ہو تو میں لے لوں تجھے۔۔۔ آخر اتنی خواری کے بعد بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی۔ ہاممممممم۔۔۔ اچھا۔۔۔ پر رات نو بجے کے بعد آنا۔۔ زین نے جمائیاں روکتے ہوئے کہا۔ اچھا۔۔ ٹھیک ہے۔۔ اچھا سن۔۔ اچانک کچھ یاد آنے پر اسنے اسد سے بولا۔ وہ شازم کو بھی لے لیں گے ساتھ آخر وہ بھی تو ہمارا پارٹنر ہے۔ اووووو۔۔۔ کانوں کو ہاتھ لگا۔۔ شازم ۔۔ نہ بھئی نہ میں تو نہیں کہہنا اسے۔۔۔ سعد نے سرے سے انکار کردیا۔۔ یار پوچھ لیں گے نا آنا ہوا تو آجائے گا نہیں تواٹھا لیں گے۔۔ زین نے اپنا قہقہہ روکتے ہوئے کہا۔ اچھا۔۔ تو ہی پوچھنا میں تو نہیں۔۔ اسد ابھی بھی انکاری تھا۔ اچھا تو جب آۓ گا نہ تب دونوں اسکی طرف بھی ہولینگے۔ اب نہ کری فون۔۔ نہیں تو تیرے صبح قل پڑھوا دینے میں۔۔ زین نے یہ کہتے ہی کال بند کی اور پھر سے سونے کی تیاری میں لگ گیا۔۔ 🍁🌹🍁🌹🍁🌹🌹🍁🌹🌹🍁🍁🍁🌹🍁🍁🌹🌹🍁 یونیورسٹی میں ایگزامز کے بعد وہی روٹین شروع ہوگئی تھی۔ اول تو کلاسز ہوتی نہیں تھی اکثر اوقات اور جب ہوتی تو لگاتار سلسلہ چل جاتا۔ ابھی بھی زری بیٹھی کچھ فنانشل ٹرمز کے ساتھ مغز ماری کررہی تھی۔ لیکچر گیپ تھا اسلئے وہ چاہ رہی تھی جو ٹرمز اسے سمجھ نہیں آئی وہ ابھی اس فارغ وقت میں کر لے۔ اسما۔۔ پلیز یار بند کردو سیل فون تھوڑی دیر کے لیے میرے ساتھ یہ لیکچر ہی کمپلیٹ کروادو۔۔ زری کا دماغ اس وقت فل بند ہورہا تھا۔ زری۔۔ تم کیا فری ٹائم میں یہ سب کھول کر بیٹھی ہو ۔ اینجوائے کرو۔ اتنے میں ابیہا بھی آگئی اور آتے ہی اسما کو پھر سے موبائل کی جانب لگا دیا۔۔ وہ دونوں قہقہے لگا لر ہنس رہی تھی زری کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر ایسا کیا ہے جو یہ اتنا ہنس رہی ہیں۔ مجھے بھی دکھاؤ کیا ہے؟ زری نے متجسس ہو کر کہا کچھ نہیں ہے یار۔۔۔ تمہیں سمجھ نہیں آئی گی۔ ابیہا نے ہنستے ہوئے بڑی مشکل سے بولا۔ آخر زری بھی اٹھ کر انکے ساتھ جا کھڑی ہوئی۔ وہ دونوں اس کی توقع کے مطابق فیس بک ہی پر لگی تھی۔ یار تم دونوں کو ڈر نہیں لگتا۔۔ تم لوگوں کی فیس بک ایسے وائرل بھی ہوسکتی ہے۔ تم لوگوں کا پرسنل ڈیٹا بھی ہوسکتا۔ ہاہاہاہایہاہاہاہاہ۔۔۔ ابیہا کا بے اختیار قہقہہ لگا۔ ارے پاگل۔۔ بے وقوف۔۔ یہاں کون اپنے رئیل نام سے آئی ڈی چلاتا۔۔ نہ تو میری اصل نام سے ہے نہ اسما کی۔
اچھا ااااااا۔۔۔ زری کو کافی حیرانگی ہوئی۔ ہاں تو اور کیا۔۔ ویسے ہی شغل لگا رہتا۔۔ کمینٹس میں۔۔ اور جو بہت ہی ترسی ہوئی عوام ہوتی ہے وہ انبکس آجاتی ہے۔۔ بس کچھ ٹائم شغل لگتا اور پھر ٹاٹا باۓ باے۔۔ اسما نے موبائل ساتھ لگے رہتے ہی کہا۔ ہمممم۔۔ مجھے تو نہیں پتا تھا یہ سب۔۔ تم چھوٹی ہو نا۔۔ چھوٹے بچوں کے کام کی بات نہیں ہے۔۔ ابیہا ایک بار پھر سے ہسی۔۔ ہی ہی ہی۔۔اچھا ٹھیک ہے۔۔ مجھے پڑھ ہی لینا چاہیے۔۔ تم لوگ کرو جو کررہی ہیں۔ زری پھر سے بکس کھول کر بیٹھ گئی۔ 🌹🍁🍁🌹🍁🌹🌹🍁🍁🌹🌹🍁🍁🌹🌹🍁🍁🌹🌹 گناہ کی لذت کے بارے میں معلوم ہے..؟؟ کتنی لذت ہوتی ہے گناہ میں..؟۔؟ جانتے ہیں گناہ کرتے ہوئے ہمیں بہت اچھے سے معلوم ہوتا کہ گناہ کر رہے ہیں مگر مسلسل کررہے ہوتے.. پتہ ہے کیوں.. ؟۔ کیونکہ گناہ بہت پرکشش اور اپنی لذتوں کی وجہ ہر انسان کو اپنی جانب کھینچتا ہے.. اور انسان بنا کوئی ردعمل دینے کے اسکی طرف کھینچا چلا جاتا.. اور معلوم ہے جب ضمیر کی عدالت لگتی ہے تو ہمیشہ ضمیر کو یہ کہہ کر خاموش کرا دیا جاتا کہ تم کیا جانو.. یہ سب میری ضرورت ہے..سب کرتے ہیں اگر تھوڑا بہت میں کر لوں تو کیا مضائقہ ہے.. اور ایک اورحقیقت.. جب گناہ چھوڑتے ہیں نا تو بہت تکلیف ہوتی ہے .. بہت رونا آتا.. کچھ عرصہ ایسے لگتا کہ ہم کس دنیا میں آگئے.. یہ ہماری جگہ نہی.. واپس اسی طرف بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں.. گناہ وہاں دور کھڑے ہماری بے بسی پہ ہنس رہا ہوتا کیونکہ اس نے اس برے طریقے سے اپنا عادی بنالیا ہوتا کہ سو میں سے ننانوے فیصد امکان یہ ہوتے ہیں کہ ہم واپس گناہ کی طرف پلٹ جائیں گے.. مگر۔۔۔۔۔ وہ ایک فیصد بعض اوقات اتنا طاقتور ہو جاتا کہ ننانوے کو مات دے جاتا۔ 🍁🍁🌹🌹🌹🍁🍁🌹🌹🌹🍁🍁🌹🌹🌹 رات ٹھیک نو بجے وہ آفت کیطرح نازل ہوگیا۔ مسلسل ہارن پہ ہارن۔۔ اسکا تو میں حشر کرتا ہوں باہر جاکر۔۔ زین کو شدید تپ چڑھ رہی تھی۔ اسی اثنا میں سلمان بھائی کی آواز۔۔ زین۔۔ کیا چکر ہے۔ باہر کب سے ہارن کی آواز آرہی ہے۔۔ سلمان اسکے روم میں داخل ہوتے ہی کہا۔ بھائی وہ۔۔ ۔۔ زین گڑبڑا گیا۔۔ کیا وہ۔۔ بھائی وہ اسد نے کہا کہ ڈنر میری طرف کرلینا تو بس وہی آیا ہوا لینے۔۔ پلیز بھائی اپ پاپا کو نہ بتانا۔۔ زین منتیں کررہا تھا۔ وہ تو سب ٹھیک ہے۔۔ مگر یہ روز روز ہی پلان نہیں بننے لگ گئے تمہارے۔۔ سلمان نے اب گھورتے ہوئے کہا۔ بھائی کہاں روز روز اب تو پورے تین دن بعد میں پلان بنایا۔۔ شاباش تین دن نہ ہوگئے تین مہینے ہوگئے نا۔ سلمان ابھی بھی گھور رہا تھا۔ اچھا بھائی جانے دیں نہ پلیز۔۔ ورنہ ہارن سے پاپا بھی آجائیں گے پھر تو میں بلکل نہیں جاپانا۔۔ اچھا ٹھیک ہے جاو اور جلدی آنا گھر۔۔ تھینک یو سوووووو مچ مچ مچ بھائی۔۔ وہ تو جیسے اسی لمحے کے انتظار میں تھا۔ یہ جا وہ جا۔۔ سلمان بس دھیمے سے مسکرا کر دیکھتا رہ گیا۔ 🍁🍁🍁🌹🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹🌹🌹🌹🌹🍁🍁 کار میں بیٹھتے ہی اس نے اسد کو تین چار لگا دی۔۔ ہارن سے ہاتھ نہیں اٹھا سکتے تھے۔۔ منحوس انسان۔۔ اتنی مشکل سے آیا ہوں۔۔ ہہاہاہاہاہاہا۔۔۔ اسد ہنس پڑا۔۔ اور کار چلادی۔۔ ویسے یار تیرا بھی لڑکیوں والا حساب ہے۔ تجھے گھر سے نکلنے کیلئے سو جتن کرنے پڑتے ہیں۔ ہاں۔ تو تیری طرح ایک اکلوتا تو ہوں نہیں۔۔ سب کےسامنے پہلے حاضری لگاؤ پھر دس بہانے بناؤ پھر کوئی چانس بنتا نکلنے کا۔۔ زین برے برے منہ بنائے اپنی آپ بیتی سنا رہا تھا۔۔ اور اسد کے دانت اندر نہیں ہورہے تھے۔ اسی چکر میں شازم کا گھر آگیا۔ زین نے اسے کال کر کے باہر بلوا لیا۔۔ اوئے کیا کررہا تھا۔ ہم پارٹی پر جارہے ہیں آجا۔ زین نے کار سے نکلتے ہی سوال جھونک دیا۔ "یار!بہت کام ہے ابو آفس کا کام گھر لے آئے تو انکی مدد کروا رہا ہوں دیکھ تو سہی مشکل ہے یار.. " "کیا یار.. تو بھی نہ سولہویں صدی کی کوئی بڈھی روح ہے چارم ای نہی تیرے میں. زین نے منہ بناتے ہوئے کہا.. "چارم.. کیسا چارم.." شازم نے سوالیہ انداز میں زین کو دیکھا.. "یار تجھے نہی پتا کیا کیا آئٹم آرہے.." اسد نے آنکھ دباتے ہوئے شرارت سے کہا.. "Shut up.. I say just shut up سمجھ کیا رکھا تم جیسے لڑکوں نے معصوم اور شریف لڑکیوں کو۔۔وہ کیا تم لوگوں کا تفریح کا سامان ہیں. اور ہم اگر تم جیسے لڑکوں کی بات ماننے سے انکار کر دیں تو کہتے ہو کہ بڈھی روح ہیں. We are conservative واہ کیا بات ہے.. اگر تمہاری اپنی بہن..." "شٹ آپ.."زین غصے سے کھول اٹھا... " واہ واہ کیا بات ہے .." شازم نے مسکراتے ہوئے بولا.." اپنے پہ بات آئی تو غصہ.. محترم کس منہ سے غصہ کر رہے ہیں برداشت کریں دوسروں پہ بات کرنا آسان ہوتی ہے خود پہ مشکل.. سوری یار مجھے تمہاری اس قسم ک پارٹی میں نہیں آنا۔۔ اسد اب زین کو آنکھیں نکال رہا تھا کیونکہ اس نے پہلے ہی منع کیا تھا۔ کیوں کہ وہ ایک بار پہلے بھی اپنی ٹھیک ٹھاک کرواچکا تھا۔ یار نہیں آنا تو صاف منع کر۔۔ اتنا بھاشن کیوں دے رہا۔۔ زین کا منہ اترا ہوا تھا اب۔ مجھے کام ہے۔۔ تم لوگ جاؤ۔ اللّه‎‎ حافظ۔۔ یہی کہتے وہ گھر کی اندر جانب چل دیا۔ تیری وجہ سے ہوا یہ۔ سب۔۔ اسد اب شدید غصہ میں تھا۔۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ آگے یہ ہوجانا۔۔ او بھائی چل۔۔ آگے ہی اتنا وقت برباد کروادیا۔۔ مزید نہ کر۔ اسد اب کار سٹارٹ کررہا تھا۔ 🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁 کچھ لمحوں میں انسان واقع ہی بےبس ہو جاتا ہے۔ اسکی بےبسی بس صرف اسی تک محدود ہوجاتی ہے نا وہ کسی سے مدد مانگ سکتا اور نا ہی وہ کسی کو کچھ کہ سکتا۔ خودمیں ایک جنگ سی شروع ہوجاتی ہے اور ہر بار وہ خود کو ہار جاتا۔
زری اس لمحے سسک رہی تھی آنسو اس کے بہہ تو رہے تھے پر وہ شائد اسکی تکلیف کو کم کرنے کے لیے بھت کم تھے۔ وہ کیسے کہتی اور کیا کہتی کیا کچھ گزر گیا اس پے ایک قیامت ہی تو برپا ہوئی تھی۔ وہ ایسے ہی تڑپ رہی تھی جیسے بن آب ایک مچھلی۔ وہ کسی کو اس لمحے اپنے سامنے چاہتی تھی کوئی ایسا جو اسکی تکلیف کو اس سے پوچھے بینا ہی جان جاۓمگر ایسا کوئی کہاں ملتا ہے۔ وہ اس کے گلے لگ کے رونا چاہتی تھی وہ سب کہنا چاہتی تھی کے میرا کوئی قصور نئی۔ میں تو خوف زدہ ہوگئی تھی کمزور پڑ گئی تھی۔ پر شائد اگر وہ کسی سے کہ بھی دیتی تو اس نے اسے ہی غلط سمجھنا تھا۔ کہنا تھا آخر تمنے اسے اتنی چھوٹ دی ہی کیوں تھی کے وہ اپنی حد پار کرتا۔ لیکن کوئی یہ تو سمجھے کے میں نے اسے کوئی چھوٹ نئی دی تھی۔ میں تو بس اس سے دور رہنا چاہتی تھی اور اس انسان کو خود سے دور رکھنا چاہتی تھی تا کے وہ میری عزت کا تماشا نا بنائے۔ وہ رو رو کے تھک چکی تھی۔ ایک ہی رستہ دکھا اور ایک ہی در۔ جہاں سے وہ کبھی خالی نہیں لوٹی تھی۔ اسنے وضو کیا اور جاۓنماز پے کھڑی ہوگئی۔
اللّہ پاک آپ تو سب جانتے ہو.. سب سمجھتے ہو.. آپ جانتے ہو میں مجرم نہی ہوں.. پھر بھی خود کو جرم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا.. اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ میں کہاں غلط ہوں... آگے کھائی نظر آتی ہے.. تو پیچھے بھی اندھیرا.. قدم آگے بڑھاوں تو بھی نقصان... نہ بڑھاوں تو بھی مجرم... زندگی کے بعض لمحے ایسے ہوتے ہیں جب ایسی سچیویشن آجاتی ہے کہ انسانی عقل جواب دے جاتی ہے.. ایسے حالات میں صرف ایک ہی ذات ہے جو مدد کر سکتی ہے... اور وہ میرا اللّہ ہے..بے شک..😔😔 اور پھر اس کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ بن کہے ہی وہاں سن لیا گیا تھا سب کچھ اور اب وہ پرسکون تھی۔

   0
0 Comments